تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں
تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں
خزینہ ہائے محبت لٹائے بیٹھا ہوں
تصورات کی دنیا میں محو ہوں اتنا
کہ اپنے آپ کو دل سے بھلائے بیٹھا ہوں
کسی حسین کا چہرہ ہے سامنے میرے
اسی کو قبلہ و کعبہ بنائے بیٹھا ہوں
میں میکدے کی بہاروں کو دیکھ کر ساقی
کسی کے نشہ پہ نظریں جمائے بیٹھا ہوں
تمہارے وعدۂ فردا پہ اعتبار نہیں
مگر امید کی شمعیں جلائے بیٹھا ہوں
بھٹک گیا ہوں مگر راستہ نہ پوچھوں گا
عجیب ضد ہے کہ دل میں بٹھائے بیٹھا ہوں
سفینہ ڈوب رہا ہے مگر خدا سے نہیں
میں ناخدا سے امیدیں لگائے بیٹھا ہوں
پہنچ ہی جاؤں گا منزل پہ ایک دن صادقؔ
اگرچہ نقش کف پا مٹائے بیٹھا ہوں