پھر سے تجدید آرزو کر لیں
پھر سے تجدید آرزو کر لیں
آئیے کچھ تو گفتگو کر لیں
زندگی کے حسیں دوراہے پر
کچھ تمنائے رنگ و بو کر لیں
دوستوں سے نباہ گر چاہیں
دشمنوں کو بھی ہم سبو کر لیں
جسم و جاں روح کو سنوار تو دیں
آنسوؤں سے اگر وضو کر لیں
لوگ فرد وفا جفا دیکھیں
آئنہ دل کا روبرو کر لیں
عیب جو نکتہ چیں عدو حاسد
اپنا دامن تو خود رفو کر لیں
پھر وفا ہو نہ مورد الزام
ظلم سہنے کی ہم بھی خو کر لیں
خود نمائی فریب ہے صادقؔ
خود شناسی کی جستجو کر لیں