وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے
وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے دنیا سمجھ رہی تھی مرے دن پلٹ گئے جو تشنہ لب نہ تھے وہ تھے محفل میں غرق جام خالی تھے جتنے جام وہ پیاسوں میں بٹ گئے صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے جب لفظ مل گئے تو مرے ...