برسا ہے اشکوں کا ساون بھی دل کی انگنائی میں

برسا ہے اشکوں کا ساون بھی دل کی انگنائی میں
پھول کھلے ہیں غم کے کتنے آج مری تنہائی میں


شاخ لچکنا غنچے ہنسنا پنچھی گانا بھول گئے
شامل ہے جو درد تمہارا یادوں کی پروائی میں


سودا ہم نے اپنے جنوں کا نہیں کیا اے اہل ہوش
کی ہے خاک مٹا کر ہستی خود ہم نے رسوائی میں


دیکھو ساتھ نہ چھوٹے اپنا ورنہ ہم کو خوف ہے یہ
بن جائیں گے نغمے ماتم موسم کی شہنائی میں


بانہوں میں آکاش بھرا ہے دھرتی پاؤں سے لپٹی ہے
قید ہیں دونوں عالم اس کی کیف بھری انگڑائی میں


شوخی مستی خوشبو رنگت ناز تبسم اور لچک
روپ نظر آئے ہیں کتنے راگؔ گل صحرائی میں