شاعری

تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں

تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں بات سایوں کی نہیں سائے تو ڈھل جاتے ہیں آپ زحمت نہ کریں پرسش حال دل کی منہ سے نا گفتنی جملے بھی نکل جاتے ہیں اتنا خوش فہم نہ ہو اے دل پژمردہ کہ اب وہ شگوفے جو نہ کھل پائیں کچل جاتے ہیں کچھ دیے خون رگ جاں سے ہوئے ہیں روشن کچھ دیے تندیٔ صہبا سے بھی ...

مزید پڑھیے

ہم نے محکم جنہیں جانا وہ ستارے ٹوٹے

ہم نے محکم جنہیں جانا وہ ستارے ٹوٹے موج ساحل سے جو گزری تو کنارے ٹوٹے اہل دل سوچ رہے ہیں یہ بڑے کرب کے ساتھ ہم ہی زنجیر ہوئے دل بھی ہمارے ٹوٹے آج ہر ذہن میں روشن میں تفکر کے چراغ دل وہ شعلہ ہے کہ جس سے یہ شرارے ٹوٹے آپ نے جن پہ نظر کی وہی ذرے چمکے ہم جنہیں دیکھ رہے تھے وہ ستارے ...

مزید پڑھیے

جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں

جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں دل سے اٹھ کر ریگ بگولے دل بادل بن جاتے ہیں کوئی سچی بات زباں پر جب بھی کبھی آ جاتی ہے وہ صحرا ہو یا گلشن ہو سب مقتل بن جاتے ہیں جب بھی ذہن میں جاگ اٹھتی ہے ان ہونٹوں کی شیرینی کیسے کیسے تلخ مسائل جان غزل بن جاتے ہیں اس سے زیادہ کیا ...

مزید پڑھیے

ہم اہل دل بھی اگر فکر جان و تن کرتے

ہم اہل دل بھی اگر فکر جان و تن کرتے تو لوگ حسن پہ اظہار حسن ظن کرتے بھٹک رہی ہیں خزاں دیدہ خار و خس کی طرح وہ کم نظر جو چلے تھے چمن چمن کرتے بہار کب تھی ترا آئنہ کہ دیوانے قبائے گل کی طرح چاک پیرہن کرتے سنوارتا نہ کوئی تیری زلف مشکیں کو جو ہم بھی پیرویٔ آہوئے ختن کرتے

مزید پڑھیے

گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے

گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے ہر شاخ کے کاندھے پر کلیوں کا جنازہ ہے کس طرح بھلائیں ہم اس شہر کے ہنگامے ہر درد ابھی باقی ہے ہر زخم ابھی تازہ ہے مستی بھی امیدیں بھی حسرت بھی اداسی بھی مجھ کو تری آنکھوں نے ہر طرح نوازا ہے مٹی کی طرح اک دن اڑ جائے گا راہوں سے سب شور مچاتے ہیں جب ...

مزید پڑھیے

سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا

سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا اب کے فساد دل سے مرے ڈر بھی لے گیا خیرات بٹ رہی تھی در شہریار پر سنتے ہیں اب کے بھیک سکندر بھی لے گیا ماں نے بچا کے رکھا تھا بیٹی کے واسطے بیٹا ہوا جواں تو یہ زیور بھی لے گیا آیا تھا ہر کسی کو محبت سے جیتنے کچھ زخم اپنے سینے کا ساغرؔ بھی لے گیا

مزید پڑھیے

پیمانہ ترے لب ہیں آنکھیں تری مے خانہ

پیمانہ ترے لب ہیں آنکھیں تری مے خانہ جس نے بھی تجھے دیکھا تیرا ہوا دیوانہ اس طرح بدل جانا اک پل میں ترا ساقی ہر شخص بلاتا ہے کہہ کر تجھے بیگانہ مشہور زمانے میں ہے دریا دلی تیری اک جام دے مجھ کو بھی اے ساقیٔ مستانہ اے شمع تیری لو میں وہ کون سی خوبی ہے جو تجھ سے گلے مل کر جل جاتا ...

مزید پڑھیے

ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا

ذہن اور دل میں فاصلا ہی رہا وقت زخموں سے کھیلتا ہی رہا عمر بھر احتیاط کے با وصف ہم پہ الزام کم نگاہی رہا ہم جسے درد آشنا سمجھے عمر بھر صورت آشنا ہی رہا خط ابیض نظر کا دھوکا تھا شب کا انجام تو سیاہی رہا

مزید پڑھیے

یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے

یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے عجیب خواب سا دیکھا تھا کچھ دنوں پہلے یہ کیا ہوا کہ اب اپنا بھی اعتبار نہیں ہمیں تو سب کا بھروسا تھا کچھ دنوں پہلے ہمارے خون رگ جاں کی لالہ کاری سے جو آج باغ ہے صحرا تھا کچھ دنوں پہلے اسی افق سے نیا آفتاب ابھرے گا جہاں چراغ جلایا تھا کچھ دنوں ...

مزید پڑھیے

جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے

جہاں سراب نہیں تھی وہاں سراب ملے حقیقتوں کو ٹٹولا گیا تو خواب ملے ہر ایک سمت سے آواز بازگشت آئی اس آرزو میں پکارا تھا کچھ جواب ملے ہمیں بہار کے آثار کی توقع تھی رخ چمن پہ نشانات انقلاب ملے کہانیوں کی کتابوں میں اب ملیں تو ملیں وہ خوش نظر جنہیں ذروں میں آفتاب ملے

مزید پڑھیے
صفحہ 1078 سے 4657