شاعری

کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی

کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی ہے ...

مزید پڑھیے

اک اسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی

اک اسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی شکر صد شکر تمہیں یاد تو آئے ہم بھی مہرباں وہ ترے لہجے سے برستا ساون جس کی رم جھم میں بڑی دیر نہائے ہم بھی لوگ حیران ہیں کیوں دیکھ کے تم کو آخر اس تجسس میں تمہیں دیکھنے آئے ہم بھی مفت کے مشورے یہ تم بھی سنبھالو اپنے اپنی محفوظ رکھیں قیمتی رائے ...

مزید پڑھیے

تم نے جو منفعت سے خسارہ بدل دیا

تم نے جو منفعت سے خسارہ بدل دیا ہم نے مفاہمت کا ارادہ بدل دیا اے بے وفا حیات تری گردشوں کی خیر تو نے بھی کیسا وقت سنہرا بدل دیا کوئی تو واردات ہوئی ہے جی اس کے ساتھ کچھ تو ہے جس نے یہ دل سادہ بدل دیا گو جیتنا ہماری بقا کا سوال تھا لیکن بساط وقت نے مہرہ بدل دیا پہلے تو زیست کرنے ...

مزید پڑھیے

زمین میلی ہے یہ آسمان میلا ہے

زمین میلی ہے یہ آسمان میلا ہے دلوں کے کھوٹ سے سارا جہان میلا ہے مشاورت سے تری بام و در سنورتے تھے جو تو نہیں ہے تو سارا مکان میلا ہے دل و نگاہ کی پاکیزگی کے سوتوں پہ جمی ہے گرد سو سارا یہ گیان میلا ہے ترے خیال کی دھرتی پہ پاؤں رکھتے ہی پھسل کے ٹوٹنے والا دھیان میلا ہے وہ ...

مزید پڑھیے

نئی ٹھوکر لگے گی تو سنبھلنا سیکھ لیں گے ہم

نئی ٹھوکر لگے گی تو سنبھلنا سیکھ لیں گے ہم حصار بے بسی سے بھی نکلنا سیکھ لیں گے ہم بڑی چاہت سے اپنے رنگ تیری سمت بھیجے تھے نئے رنگوں کی چاہت کو کچلنا سیکھ لیں گے ہم ابھی تو بس منڈیروں تک تمہاری دھوپ آئی ہے ڈھلے گا دن تو اس کے ساتھ ڈھلنا سیکھ لیں گے ہم طریقہ کچھ نیا تم سوچ رکھنا ...

مزید پڑھیے

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں اچانک ایک عجب بات یہ سنی کہ میں ہوں تلاش کر کے مجھے لوٹنے کو تھا کوئی مرے وجود کی خوشبو پکار اٹھی کہ میں ہوں کہ تیرگی میں پلی آنکھ کو یقیں آ جائے ذرا بلند ہو آہنگ روشنی کہ میں ہوں وہ خالی جان کے گھر لوٹنے کو آیا تھا مرے عدو کو خبر آج ہو گئی ...

مزید پڑھیے

کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے

کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے کبھی لمحے کا پھیلاؤ بہت اچھا لگا ہے ستایا ایک عرصہ طبع کی جولانیوں نے تو اب جذبوں کا ٹھہراؤ بہت اچھا لگا ہے لگایا ہے فراموشی کا مرہم سب پہ لیکن گئے وقتوں کا اک گھاؤ بہت اچھا لگا ہے سکوں پرور جزیروں تک مجھے پہنچانے والا تلاطم سا پس ناؤ بہت ...

مزید پڑھیے

کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں

کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں میں تو ساری بکھر گئی ہوں گھر کو اکٹھا رکھنے میں دائرہ منفی مثبت کا تو اپنی جگہ مکمل ہے کوئی برقی رو دوڑا دے اس بے جان سے ناطے میں کون احساس کی لو بخشے گا روکھے پھیکے منظر کو کون پروئے گا جذبوں کے موتی حرف کے دھاگے میں ایسا کیا اندھیر ...

مزید پڑھیے

میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی

میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی اندھیرے اور بھی کچھ تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں دیا کوئی جلانے کی جہاں کوشش نہیں رہتی یہ دل تو کس طرف جانے بہا کر لے گیا ہوتا نگاہوں میں اگر وہ ساعت پرسش نہیں رہتی مہ و انجم سے لوٹ آئیں اجارہ دار دنیا ...

مزید پڑھیے

سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے

سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے آئنوں سے جو کہیں ان کو نہیں کہہ سکتے ان کے لہجے میں کوئی اور ہی بولا ہوگا مجھے لگتا ہے کہ ایسا وہ نہیں کہہ سکتے شہر میں ایک دوانے سے کہلواتے ہیں اہل پندار مرے خود جو نہیں کہہ سکتے یوں تو مل جانے کو دم ساز کئی مل جائیں دل کی باتیں ہیں ہر اک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1032 سے 4657