تم نے جو منفعت سے خسارہ بدل دیا

تم نے جو منفعت سے خسارہ بدل دیا
ہم نے مفاہمت کا ارادہ بدل دیا


اے بے وفا حیات تری گردشوں کی خیر
تو نے بھی کیسا وقت سنہرا بدل دیا


کوئی تو واردات ہوئی ہے جی اس کے ساتھ
کچھ تو ہے جس نے یہ دل سادہ بدل دیا


گو جیتنا ہماری بقا کا سوال تھا
لیکن بساط وقت نے مہرہ بدل دیا


پہلے تو زیست کرنے کی ہمت تھی آہنی
کم مائیگی تھی جس نے ارادہ بدل دیا


مفہوم جان لینے سے قاصر نہیں ہیں ہم
تو کیا ہوا کہ آپ نے فقرہ بدل دیا


یہ روشنی کا عادی رہا ہے تمام عمر
تاریکیوں نے شہر کا نقشہ بدل دیا


اپنی طرح کے ایک ہی ہیں آپ بھی جناب
جب ہم بدل گئے تو ارادہ بدل دیا


یہ عشق ہی کا وصف رہا ہے کہ صائمہؔ
دل پہ چڑھا تھا رنگ جو گہرا بدل دیا