شاعری

ہم پس پردہ رہیں یا پیش منظر میں رہیں

ہم پس پردہ رہیں یا پیش منظر میں رہیں ہاں ہمارے حرف روشن دیدۂ تر میں رہیں ایک صف میں ہم قدم رہنا اگر مشکل ہوا یہ تو ممکن ہے کہ ہم تم ایک لشکر میں رہیں تھک گئی ہوں سوچتی ہوں خود کو سمجھایا کروں یہ کہ آخر کتنے سودے ایک ہی سر میں رہیں ڈایری میں آج کی تاریخ پر لکھا ملا میزبانی کے لئے ...

مزید پڑھیے

سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے

سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے آئنوں سے جو کہیں ان کو نہیں کہہ سکتے ان کے لہجے میں کوئی اور ہی بولا ہوگا مجھے لگتا ہے کہ ایسا وہ نہیں کہہ سکتے شہر میں ایک دوانے سے کہلواتے ہیں اہل پندار مرے خود جو نہیں کہہ سکتے یوں تو مل جانے کو دم ساز کئی مل جائیں دل کی باتیں ہیں ہر اک ...

مزید پڑھیے

ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے

ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے اندھیروں میں لپٹتا روشنی کا رنگ دیکھا ہے سدا پہلو میں بھی مد مقابل کی طرح رہنا کسی کی دوستی میں دشمنی کا رنگ دیکھا ہے بڑی گہری محبت کی دھنک ہے جن نگاہوں میں انہی میں گاہے گاہے دل لگی کا رنگ دیکھا ہے کتابوں سے نکلتا ہے تو پہچانا نہیں ...

مزید پڑھیے

نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا

نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا پر پرواز بھی تب تک نہ کھلے تھے جب تک بیٹھ جانے کی تھکن سے نہ بدن چور ہوا دن کی چھلنی میں ترا لمحۂ فرصت چھانے دل تو لگتا ہے اسی کام پہ مامور ہوا دامن دوست ہے اک ذہن کے پردوں میں کہیں جس قدر ہاتھ بڑھایا ہے سو وہ دور ...

مزید پڑھیے

اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے

اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے گھر ہے اک اور اس میں رہتا کوئی نہیں ہے کبھی کبھی تو اچھا خاصا چلتے چلتے یوں لگتا ہے آگے رستہ کوئی نہیں ہے ایک سہیلی باغ میں بیٹھی روتی جائے کہتی جائے ساتھی میرا کوئی نہیں ہے مہر و وفا قربانی قصوں کی ہیں باتیں سچی بات تو یہ ہے ایسا کوئی نہیں ...

مزید پڑھیے

کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا

کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا کب سے کوئی کسی دیوار میں در چاہتا تھا ضبط کے پیڑ نے گل اور کھلائے اب کے اور ہی طرز کا یہ دل تو ثمر چاہتا تھا آخری منزل تسکین دل و جان تلک منزلیں راہ نہ کاٹیں یہ سفر چاہتا تھا چند لمحوں کے لئے جڑ کو وہ سیراب کرے اور شتابی سے نکل آئے ثمر ...

مزید پڑھیے

اک برف کا دریا اندر تھا

اک برف کا دریا اندر تھا دہکا ہوا سورج سر پر تھا نفرت کے شعلے دہکتے تھے اک خوف کا عالم گھر گھر تھا ہر دل میں تھے خدشات کئی ہر لمحہ دہشت منظر تھا ظاہر میں لگتا تھا موم کا وہ چھو کر دیکھا تو پتھر تھا نغمے لکھتا تھا اشکوں سے ایسا بھی ایک سخنور تھا جو ہار کو جیت بنا دیتا کیا کوئی ...

مزید پڑھیے

نیند ان آنکھوں میں بن کر آئے کوئی

نیند ان آنکھوں میں بن کر آئے کوئی لوری ماں کی مجھے سنا جائے کوئی دور یہاں سے جا کر سب کچھ بھول گئے ہم زندہ ہیں ان کو بتلائے کوئی روز ازل سے ہم تھے اکیلے دنیا میں کہاں سے اور کیسے اب ساتھ آئے کوئی سچ کو میں سچ مان لوں اب یہ بہتر ہے مجھ کو قائل کیسے کر پائے کوئی ایسی کہانی کبھی ...

مزید پڑھیے

تھپکیاں دے کے ترے غم کو سلایا ہم نے

تھپکیاں دے کے ترے غم کو سلایا ہم نے کیا کہیں کس طرح یہ بوجھ اٹھایا ہم نے شام پڑتے ہی دیا کون جلاتا ہے یہاں اس حویلی میں نہ انساں کوئی پایا ہم نے یوں تو ہر ذرے سے پوچھا ترے جانے کا سبب راز گہرا تھا کسی کو نہ بتایا ہم نے وہ عجب شخص تھا ہر در پہ جھکاتا تھا جبیں چاہ کر بھی تو نہیں اس ...

مزید پڑھیے

مجھ کو ہر لمحہ نئی ایک کہانی دے گا

مجھ کو ہر لمحہ نئی ایک کہانی دے گا ہر کہانی میں ترا رنگ دکھائی دے گا کل جو اک لفظ نہ سنتا تھا صفائی میں مری آج وہ شخص مرے حق میں گواہی دے گا جس نے قائم کیا یہ رشتہ قلم سے میرا اب کہاں وہ مجھے دنیا میں دکھائی دے گا وقت آخر نہ ملاقات مری اس سے ہوئی ہر غزل میں مری یہ نوحہ سنائی دے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1033 سے 4657