اک اسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی

اک اسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی
شکر صد شکر تمہیں یاد تو آئے ہم بھی


مہرباں وہ ترے لہجے سے برستا ساون
جس کی رم جھم میں بڑی دیر نہائے ہم بھی


لوگ حیران ہیں کیوں دیکھ کے تم کو آخر
اس تجسس میں تمہیں دیکھنے آئے ہم بھی


مفت کے مشورے یہ تم بھی سنبھالو اپنے
اپنی محفوظ رکھیں قیمتی رائے ہم بھی


گو بہت گہرے ہیں ڈھونڈو گے تو مل جائیں گے
ہو چکے صائمہؔ اب شام کے سائے ہم بھی