پھر خوف کا اک رنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
پھر خوف کا اک رنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
درپیش کوئی جنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
محفوظ کہیں بھی تو نہیں ہے سر انساں
ہر ہاتھ میں اب سنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
جائیں تو کہاں جائیں اماں ڈھونڈنے والے
انساں پہ زمیں تنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
اللہ رے تجدید رفاقت کی یہ کوشش
ہر شخص مگر دنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
پازیب کی جھنکار میں برسات کی لے میں
اک رنگ اک آہنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہے گرم فراغؔ آج بھی بازار غزل کا
پر شاعری بے رنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی