کبھی حریف کبھی ہم نوا ہمیں ٹھہرے
کبھی حریف کبھی ہم نوا ہمیں ٹھہرے کہ دشمنوں کے بھی مشکل کشا ہمیں ٹھہرے کسی نے راہ کا پتھر ہمیں کو ٹھہرایا یہ اور بات کہ پھر آئینہ ہمیں ٹھہرے جو آزمایا گیا شہر کے فقیروں کو تو جاں نثار طریق انا ہمیں ٹھہرے ہمیں خدا کے سپاہی ہمیں مہاجر بھی تھے حق شناس تو پھر رہنما ہمیں ٹھہرے دلوں ...