پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہیں گیا

پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہیں گیا
وہ شخص ساری عمر بھلایا نہیں گیا


اس نے بھی میری بات نہ مانی کبھی کوئی
مجھ سے بھی اس کا ناز اٹھایا نہیں گیا


اپنی انا کا بوجھ میں ڈھوتا رہا مگر
سر اس کے سنگ در پہ جھکایا نہیں گیا


بے چہرگی ہی اب مری پہچان بن گئی
چہرے پہ کوئی چہرہ لگایا نہیں گیا


بدنام ہو نہ جائے کہیں دوستی تری
پلکوں سے اپنی اشک گرایا نہیں گیا


بیتابؔ اس کے حال پہ افسوس کیجئے
جس سے خود اپنا درد چھپایا نہیں گیا