جب دشت تمنا میں کوئی پھول کھلا ہے
جب دشت تمنا میں کوئی پھول کھلا ہے
شہر دل خاموش سے اک شور اٹھا ہے
آنکھوں میں کھنڈر ہونٹوں پہ اک بھولا ہوا نام
چاہت میں کسی کی یہ عجب حال ہوا ہے
پھر یادوں کی دہلیز پہ جل اٹھی ہیں شمعیں
پھر پلکوں پہ بکھرا ہوا اک خواب سجا ہے
ہر سانس ہو تلوار سی جیسے رگ جاں پر
جینا بھی یہاں نام کسی معجزے کا ہے
خاموش بہت دیر سے ہے بحر حوادث
طوفان تہہ آب کوئی کھول رہا ہے
تم چاہو تو یہ آخری سرمایہ بھی لے لو
اک درد کی دولت کے سوا پاس ہی کیا ہے
بیتابؔ برس جانے دو آنکھوں کا یہ ساون
تنکوں کا بدن شعلوں کی باہوں میں گھرا ہے