لو دینے لگا ہے تری یادوں کا دیا پھر
لو دینے لگا ہے تری یادوں کا دیا پھر
بہکے نہ کہیں دیکھنا جنگل کی ہوا پھر
تجدید محبت کا خیال آیا ہے اس کو
پائے نہ کہیں جرم وفا کی وہ سزا پھر
شاید کہ لی انگڑائی کسی چاند بدن نے
ہیجان سا خاموش سمندر میں اٹھا پھر
عفریت شب تار نے لب کھولے ہیں کیا کیا
خاموشیٔ صحرا سے اٹھے کوئی صدا پھر
پھر خواب سجانے لگے پلکوں پہ دوانے
بھونروں کو رجھانے لگی پھولوں کی ادا پھر
تم تھے کہ مرے پاؤں میں زنجیر تھی بیتابؔ
بے نام تعلق ہی سہی کیوں نہ رہا پھر