خیال و خواب کی زلفیں سنوار تھوڑی دیر
خیال و خواب کی زلفیں سنوار تھوڑی دیر
ابھی ہے اور شب انتظار تھوڑی دیر
محبتوں کے یہ پیکر یہ دوستی کے امین
وفا کے ہوتے ہیں سب پاسدار تھوڑی دیر
ابھی نہ روکئے ان آنسوؤں کو پلکوں پر
نکلنے دیجئے دل کا غبار تھوڑی دیر
تمام عمر رہا اس کا انتظار مجھے
جو کہہ گیا تھا کرو انتظار تھوڑی دیر
بنا رہوں میں تماشائے آرزو کب تک
عذاب مجھ پہ خدایا اتار تھوڑی دیر
ضرور پگھلیں گی یخ بستہ وادیاں بیتابؔ
رکے تو دھوپ سر کوہسار تھوڑی دیر