آنکھیں موندے سب کچھ بھولے کب سے یوں ہی بیٹھے ہیں

آنکھیں موندے سب کچھ بھولے کب سے یوں ہی بیٹھے ہیں
پلکوں پہ کچھ خواب سجائے جاگے جاگے سوئے ہیں


کس سے کیا رشتہ تھا میرا اب تو یہ بھی یاد نہیں
ریزہ ریزہ آئینہ ہے بکھرے بکھرے چہرے ہیں


اپنے گھر کی ویرانی کا ہم کس سے کیا حال کہیں
سونا سونا دروازہ ہے خالی خالی کمرے ہیں


تنہائی کے اندھیارے میں یادوں کی موہوم کرن
جیسے رات کی پیشانی پر جھلمل جھلمل تارے ہیں


تم سے کیا بتلائیں دل کا عالم کیا ہو جاتا ہے
بیتے موسم کی یادوں کے آنچل جب لہراتے ہیں


اب کے برس بھی ساون آ کر یوں ہی بیت گیا آخر
جلتے ہیں ہم اندر اندر آس کے پنچھی پیاسے ہیں


وقت کی بھٹی میں تپ تپ کر ہم نے یہ جانا بیتابؔ
سچا ہے اک درد کا رشتہ باقی رشتے جھوٹے ہیں