نظروں سے نوچ ڈالی سب نے قبا گلوں کی
نظروں سے نوچ ڈالی سب نے قبا گلوں کی
لاشیں پڑی ہوئی گلشن میں پتیوں کی
رسی پہ چل رہی ہے ننھی سی ایک گڑیا
مجبوریاں ہیں شاید درپیش روٹیوں کی
ہر کوئی چاہتا ہے گھر گھر میں چاند اترے
چاہت نہیں کسی کو آنگن میں تتلیوں کی
عالم پناہ کا اب فرمان آ گیا ہے
آواز تک نہ آئے محلوں میں مفلسوں کی
لہجے کو اور کتنا نازک بنا کے بولیں
گنتی کریں کہاں تک ماتھے کی سلوٹوں کی
تم نورؔ کو نہ سمجھے تم نورؔ کو نہ جانے
شیدا ہے آندھیوں کی شوقین بجلیوں کی