لوٹ آئے وہ یا خدا پھر سے
لوٹ آئے وہ یا خدا پھر سے
میں نے مانگی ہے یہ دعا پھر سے
ٹوٹ کر میں بکھر بھی سکتی ہوں
دیکھ مجھ کو نہ آزما پھر سے
ہر قدم پہ سنبھل کے چلتی ہوں
ہو نہ جائے کوئی خطا پھر سے
ریت مٹھی میں لے کے بیٹھی ہوں
دیکھ بدلے گا زاویہ پھر سے
بات اہل وفا کی نکلی تھی
آپ کا ذکر آ گیا پھر سے
اپنی چاہت پہ مان ہے اتنا
دل نہ توڑیں گے وہ میرا پھر سے
نورؔ تنہائیوں سے ڈرتی ہے
پاس اپنے مجھے بلا پھر سے