مت پوچھ مسیحا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں
مت پوچھ مسیحا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں
اک درد مسلسل کی دوا ڈھونڈ رہی ہوں
بے ساختہ جو کھول دے اس دل کے دریچے
مانوس سی وہ ایک سدا ڈھونڈ رہی ہوں
سوئے ہوئے دل کے جو احساس جگا دے
اقبال کا وہ بانگ درا ڈھونڈ رہی ہوں
اے جان تمنا ترے دامن سے لپٹ کر
بہتے ہوئے اشکوں کا صلہ ڈھونڈ رہی ہوں
کٹ جائیں کسی طور غم ہجر کی راتیں
فرقت ہے مگر وصل ترا ڈھونڈ رہی ہوں
نکلے نہ کوئی نور چراغوں کے بدن سے
میں تیز ہواؤں کی ردا ڈھونڈ رہی ہوں