غیر ممکن ہے کہ غفلت کوئی صیاد کرے

غیر ممکن ہے کہ غفلت کوئی صیاد کرے
کون ہوگا جو مجھے قید سے آزاد کرے


خوف ایسا کہ کہیں پھر نہ بھلا دے مجھ کو
سوچتی ہوں کہ کہیں پھر نہ مجھے یاد کرے


ضبط اتنا کہ میں دلہن بھی سجا سکتی ہوں
شرط اتنی کہ محبت سے وہ ارشاد کرے


وہ ہر اک بات سے چاہے تو مکر سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہر بات پہ ہی صاد کرے


کون کہتا ہے مرا نام لیا ہے اس نے
اس سے کہنا کہ ذرا پھر سے وہ ارشاد کرے


ہم ترے سامنے رونے بھی نہیں آئیں گے
تو ستم روز نیا شوق سے ایجاد کرے


نورؔ رکھتی ہے پہاڑوں سا کلیجہ لیکن
کیا کرے یاد تجھے جب دل برباد کرے