نظر کی بات پہنچے گی نظر تک
نظر کی بات پہنچے گی نظر تک
اڑے گی دھول پھر دیوار و در تک
کوئی منزل تصور ہی ہے شاید
سفر کوئی ہو پہنچے گا سفر تک
ابھی اک بوند چپکے سے گری ہے
کوئی آیا تھا شاید چشم تر تک
مرے جب ہم کوئی چرچا نہ نکلا
مرے قاتل ہی پہنچے تھے خبر تک
وہ واپس پھر زمیں پر لوٹتی ہیں
جو راہیں لے کے جاتی ہیں شکھر تک
بھلے لمبی ہو غم کی رات کتنی
کوئی بھی رات رہتی ہے سحر تک