ہیں ہواؤں میں تلخیاں شاید
ہیں ہواؤں میں تلخیاں شاید
آندھیوں میں ہو کچھ بیاں شاید
لفظ کھو آئے ہیں سبھی معنی
بات کہہ دیں خموشیاں شاید
کتنی گہری اداسیاں ہیں ابھی
نیند کچھ دے تسلیاں شاید
گھر میں جسموں کی آنچ باقی ہے
آج اجڑا ہے آشیاں شاید
اس جگہ ہر کوئی اکیلا ہے
جس جگہ ہیں بلندیاں شاید
بچے الجھے ہیں سب کتابوں میں
منتظر ہوں گی تتلیاں شاید
رب ہے اوپر زمین پر دنیا
بیچ میں ہے بہت دھواں شاید
خط لکھیں گے انہیں سلیقے سے
آج کانپیں گی انگلیاں شاید