نظر آئیں کیا میرے پیکر میں آنکھیں

نظر آئیں کیا میرے پیکر میں آنکھیں
دبی رہ گئیں غم کے بستر میں آنکھیں


تمہاری نگاہوں میں جھانکا ہے میں نے
کہ ڈوبی ہوئی ہیں سمندر میں آنکھیں


تمہیں ڈھونڈ لینا تو مشکل نہیں تھا
اگر ہوتیں میرے مقدر میں آنکھیں


یہ کیا راز ہے تو ہی سمجھا دے ساقی
ہیں آنکھوں میں ساغر کہ ساغر میں آنکھیں


ہوئے غرق ایسے کہ پایا ہے خود کو
کھلی ہیں ہماری سمندر میں آنکھیں


خدا کے لئے یاد رکھنا وہ وعدہ
تمہیں ڈھونڈھتی ہوں گی محشر میں آنکھیں


جلانے کے اسباب ہیں دونوں جانب
تیرے گھر میں شمعیں مرے گھر میں آنکھیں


کسی بت سے تم پیار کرکے تو دیکھو
نظر آئیں گی نورؔ پتھر میں آنکھیں