بچوں کے لیے کہانی: والدین کی نافرمانی کا انجام

گھر میں تنگ دستی کا عجیب عالم تھا۔ اگرصبح کاکھانامل گیاتورات کا ملنامشکل تھا۔ دن تھے کی اسی طرح گھسٹ گھسٹ کرگزر رہے تھے۔کچی آبادی میں مقیم ما ں با پ، ایک بہن سا ئرہ اور دوبھائیو ں زاہد اور شاہد پرمشتمل یہ خاندان ابتلائے زمانہ کی وجہ سے یہا ں آبادتھا۔

ما ں اردگرد کے گھروں میں معمو لی کام کر کے بیمارشوہر اوربچو ں کا پیٹ پا ل رہی تھی۔ زاہد اور شاہد کے لیےسکو ل جانامشکل تھا۔ بیمار پڑے باپ نے دونو ں بیٹو ں اوربیٹی کو گھر پر ہی اتنا کچھ پڑھا لکھا دیا تھا کہ معمو لی کتاب،رسالے تھوڑا بہت حساب کتاب کرنے کےقابل ہو گئے۔

بچے ذرا بڑے ہو ئے تو ماں نے کہا کہ جا ؤ اب کچھ کماکرلاؤ کہ اب میری ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔زاہد اورشاہد کےلئے بڑا مشکل تھا کہ کو ئَی کام حا صل کرسکیں ۔

کہا جا تا ہے کہ جب بھلےدن قریب ہو ں تو الٹا کام بھی سیدھا ہوجاتا ہے۔گھر سے نکلے تو سامنے ایک بڑی عمارت تعمیرہورہی تھی۔ بے شمار مزدور کام میں لگے ہو ئےتھے ۔ زاہد اور شاہد ایک جا نب کھڑے ہوکر انہیں دیکھنے لگے اتنے میں کا ر میں ایک شخص آیا۔ اس نے دونوں کودیکھا توشکل وصورت سےمعصوم لگےتو اس نے پوچھا :

کا م کر وگے ......؟

ہا ں ... ہا ں ... دونو ں نےگھبرائے ہو ئے لہجےمیں کہا۔

لگتا ہےکسی شریف گھرانے سےتعلق ہے اورکبھی محنت و مشقت کا کام بھی نہیں کیا۔ کیا تم لکھنا پڑھنا جا نتے ہو؟ سیٹھ نے پوچھا۔

جی... ہاں ... جی... دونو ں پھر ایک ساتھ بو لے۔

 تمہارےنام کیا ہیں؟

شاہد اور زاہد ... دونوں نے بتایا۔

مجھے ایک منشی کی ضرورت ہے جو روزانہ کا حساب کتاب رکھے اور ایک ذاتی ملازم کی ضرورت ہے جو ہر وقت میرے ساتھ رہے ، کیا تم یہ کام کرسکتےہو؟ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ دونوں فو راَ تیار ہوگئے۔

کام سےلگن اورتجربے نے دونو ں کو چند سال بعد اس قبل بنا دیا کہ وہ خود اپنا کا روبارکرسکیں اور پھر دونوں نے مل کر ایک تعمیراتی کمپنی بنا لی۔محنت اور دیانت سے کام کیا جا ئے تومٹی بھی سونابننے لگتی ہے۔ وہ جو کام بھی شروع کرتے انہیں بے پناہ نفع ہو تا۔ اب تو وہ کچی آبادی کےبجا ئے ما ڈل کالونی منتقل ہوچکےتھے۔ ماں با پ اوربہن بھی ان کےساتھ تھے۔ مسلسل بیماری کی وجہ سےباپ جلد اس دنیا سے رخصت ہوگیاجبکہ بہن کی شادی کر دی گئی۔

شاہد اور زاہد دونو ں اپنے کام میں اس قدر الجھے کہ بس پیسے بنانے والی مشین بن کر رہ گئے لیکن اس کے باوجود زاہد کا کاروبار پر جا تے ہو ئے اور واپسی پر ماں کا حال پوچھ لیا کرتا تھا لیکن شاہدکو اس کی فرصت بھی نہ تھی۔

ماں بیمارہو ئی تو  نوکرو ں کے علاوہ اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ شاہد اور زاہدکو اپنے وسیع کا روبار سے فرصت ہو تی تو ما ں کا حال پو چھتے۔ وہ رات گئے تک ان کی منتظر رہتی، وہ ان کی شکل دیکھنےکوترس گئی۔ آخر ایک دن اتنے بڑے گھر میں بہوؤ ں اور بیٹو ں کے ہو تے ہو ئےکسمپرسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔

ما ں، ما ں ہو تی ہے۔ بیٹو ں اور بہو ؤں نے اگرچہ اس کی پرواہ نہیں کی تھی لیکن وہ ہرحال میں بیماری اور تکلیف میں بھی ان کے کاروبار اور سلامتی کے لئے دعا ئیں مانگتی رہتی تھی۔ رحمت وشفقت کایہ سایہ جب سرسےاٹھا تو ایسےلگا کہ ان کے کاروبار سے برکت اٹھتی جا رہی ہے۔ نقصا ن درنقصا ن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔محنت و مشقت سےکمائی ہو ئی دولت برباد ہوتی چلی گئی۔ حتی ٰکہ عالی شان محل نما کوٹھی بھی بیچنی پڑگئی۔ کرا ئے کے  تنگ مکان میں منتقل  ہو ئے تو دونوں نے سوچا کہ آخریہ سب کچھ کیا ہے؟یہ کیسے ہو ا؟

ان کے ایک دوست کو حالات کا پتہ چلا تو وہ ملنے آیا۔ انہو ں نے حالات کا شکوہ کیا تو دوست نے کہا کہ جب انسان اپنے رب کے احکامات کو فراموش کر دیتا ہے اوروالدین سےنیکی اوربھلائی ترک کر دیتا تو یہی کچھ ہو تاہے۔

 کیا تم نے یہ نہیں سن رکھا:

وصینا الا انسان بوالدیہ احسانا۔

ترجمہ ۔ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے نیکی کرنے کی تلقین کی ۔

انہیں اس بات کا سخت صدمہ تھا کہ انہو ں نے بے پناہ دولت کےبا وجود ما ں سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اب ہا تھ ملنے سے کیا ہوسکتا ہے؟

متعلقہ عنوانات