مری وفا کا نہ سوچا تھا یہ صلہ دے گا

مری وفا کا نہ سوچا تھا یہ صلہ دے گا
سمجھ کے حرف غلط وہ مجھے مٹا دے گا


بھلا وہ دے گا بھی مجھ کو تو اور کیا دے گا
غموں کی دھوپ میں جینے کی بس سزا دے گا


عجیب ضد ہے کہ الٹا ہی سوچتا ہے وہ
میں سچ کہوں گا اسے جھوٹ وہ بنا دے گا


ستم کا اس کے کچھ انداز ہی نرالا ہے
جو موت چاہوں گا جینے کی وہ دعا دے گا


یہ سوچتا ہوں اسے آئنہ دکھا ہی دوں
بہت کرے گا بھری بزم سے اٹھا دے گا


میں چھوڑ دوں اسے بیتابؔ کس طرح آخر
قدم قدم پہ مرا گھر مجھے صدا دے گا