مری چشم شوق میں بارہا وہ ہزاروں رنگ بدل گئے
مری چشم شوق میں بارہا وہ ہزاروں رنگ بدل گئے
میں فریب حسن نہ کھا سکا وہ کلیم تھے جو بہل گئے
شب غم غلط یہ خیال تھا کہ فلک پہ تارے نکل گئے
مجھے نا مراد سا دیکھ کر وہ چراغ گھی کے تھے جل گئے
تو اگر ہے طالب دل ربا تو فروتنی کا مزہ اٹھا
یہ مقام عشق ہے دیکھنا جو یہاں گرے وہ سنبھل گئے
ہیں جنوں مزاج بلا کے ہم تو ہمارا جوش جنوں نہ پوچھ
کبھی چل کے عرش پہ دم لیا کبھی اس سے دور نکل گئے
انہیں دیکھنے گئے جس گھڑی کہا شرط ہے یہاں بے خودی
ہوئی ان کی دید تو یوں ہوئی یہ عجیب چال وہ چل گئے
میں مآل حسن و وفا پہ کچھ نظر اپنی ڈالنے جب لگا
نہ پتنگ ہی تھے نہ شمع تھی وہ پگھل گئی تو وہ جل گئے
سر بزم سن کے مری غزل لگے کہنے جوہریان فن
کے مشاعرے میں تو ذائقؔ آج سخن کے لعل اگل گئے