جب مری گردن پہ اس نے اپنا خنجر رکھ دیا
جب مری گردن پہ اس نے اپنا خنجر رکھ دیا
لوگ اٹھے اور اس کے تاج سر پر رکھ دیا
بوند ہی کافی تھی جب سیراب ہونے کے لیے
خشک ہونٹوں پر یہ تم نے کیوں سمندر رکھ دیا
اب بھٹکتے پھر رہے ہیں راحت جاں کے لیے
یہ کمی اپنی ہے جو سب کچھ بھلا کر رکھ دیا
کھا کے ٹھوکر آ گیا اب مجھ کو چلنے کا ہنر
شکریہ تم نے جو میری رہ میں پتھر رکھ دیا
سوچتا ہوں مر نہ جاؤں بوجھ سے دب کر کہیں
آج اک کم ظرف نے احسان سر پر رکھ دیا
طنزیہ لہجے میں ہم سے بات مت کیجے حضور
ایسا لگتا ہے کسی نے دل پہ نشتر رکھ دیا
جس طرح اخبار پڑھ کے کوئی رکھ دے اک طرف
میں نے ساجدؔ اس طرح دنیا کو پڑھ کر رکھ دیا