میں ریزہ ریزہ بکھر کے ایسے سمٹ رہا ہوں

میں ریزہ ریزہ بکھر کے ایسے سمٹ رہا ہوں
کہ تھوڑا تھوڑا سبھی کے حصہ میں بٹ رہا ہوں


میں ایک پتھر صفت زمانے سے ہوں مگر اب
کسی کے آنسو کے چند قطروں سے کٹ رہا ہوں


میں خوش ہوں اس کو دکھا رہا ہوں نئے مناظر
مگر یہ دکھ بھی کہ اس کی نظروں سے ہٹ رہا ہوں


مجھے یقیں ہے بچھڑنے والا یہیں ملے گا
میں اپنے ماضی کے آج پنے پلٹ رہا ہوں


ترے بدن سے غزل کی خوشبو سی آ رہی ہے
سو تیرے دامن سے کچھ زیادہ لپٹ رہا ہوں


عجیب ہے وہ کسی کی باہوں میں خوش بہت ہے
عجیب ہوں میں جو نام اس کا ہی رٹ رہا ہوں


بنانے والے مجھے قد آور بنا رہے ہیں
میں ہوں کہ ساجدؔ جو اپنے قد سے بھی گھٹ رہا ہوں