علم و فن کا جو طلب گار نہیں ہو سکتا
علم و فن کا جو طلب گار نہیں ہو سکتا
میرا دعویٰ ہے وہ فن کار نہیں ہو سکتا
آج وہ عشق میں مرنے پہ بھی آمادہ ہے
کل جو کہتا تھا مجھے پیار نہیں ہو سکتا
جھوٹ بولا بھی تو معصوم کی جاں کی خاطر
میں خطا وار گنہ گار نہیں ہو سکتا
وہ یقیناً ہے مرے ساتھ مری رگ رگ میں
اس کا دھوکا مجھے ہر بار نہیں ہو سکتا
مجھ کو بستی کے سبھی لوگ دعا دیتے ہیں
میرا رستہ کبھی دشوار نہیں ہو سکتا
جو زمیں چھوڑ دے شہرت کے لیے پل بھر میں
وہ بلندی کا تو حق دار نہیں ہو سکتا
میں نے رکھا ہے بھرم اپنی زباں کا ساجدؔ
میرا لہجہ کبھی تلوار نہیں ہو سکتا