ایسی کسک تھی آنکھ سے آنسو گرا نہ تھا
ایسی کسک تھی آنکھ سے آنسو گرا نہ تھا
اس بار میرا درد بھی میری دوا نہ تھا
بے چین روح چین سے بیٹھی نہ ایک پل
جب تک مرے وہ جسم میں داخل ہوا نہ تھا
احسان روشنی کا ہی رہتا تمام عمر
ورنہ ترے چراغ سے مجھ کو گلہ نہ تھا
اس راستے پہ منزلیں میں نے تلاش کیں
جس راستے پہ کوئی کہیں نقش پا نہ تھا
میں ڈر رہا ہوں آج کہ اس کے جمال پر
رنگ حیا تو خوب تھا رنگ وفا نہ تھا
دل نے کسی طرح کی پرستش نہ کی قبول
وہ شخص بے مثال تھا لیکن خدا نہ تھا
اس نے بھی گھر بنائے تھے کتنوں کے ذہن میں
ساجدؔ اسے تو سوچنے والا نیا نہ تھا