محدود ہے یہ وسعت عالم بھی نظر میں
محدود ہے یہ وسعت عالم بھی نظر میں
گم ہو گیا ہوں ایسا تری راہ گزر میں
میں کشمکش دہر سے بے علم ہوں اب تک
تو خود ہی بتا کون ہے ہر چیز میں شر میں
دنیا مرے معیار پہ اترے گی نہ تا عمر
یہ تو ہے کھلونا مری نم دیدہ نظر میں
عنقا ہے زمانے سے مساوات و اخوت
اوصاف بشر ڈھونڈنے نکلے ہو بشر میں
تخئیل مری عرش کا رکھتی ہے تقدس
ہے رفعت افلاک مری فکر کے پر میں
لے جائے گا تو مجھ کو کہاں اے غم ہستی
سایہ بھی مرا ساتھ نہیں اب تو سفر میں
ہے نقش کف پا ترا منزل کی بشارت
اب قافلے ٹھہریں گے مری راہ گزر میں
شعروں میں نشاطؔ اپنے وہ لاؤ گے کہاں سے
جو رنگ تغزل کا ہے نغمات جگرؔ میں