ادبی لطائف

داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے

ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے ۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان کے شاگرد نواب عبداللہ خاں مطلب نے کہا: ’’استاد آپ جارہے ہیں ۔ جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جائیے ۔ یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا۔ ’’داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے۔‘‘

مزید پڑھیے

ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں

ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔ کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے ہجر سے پہلے ‘‘ وغیرہ ۔انہوں نے ایک شعر جس میں ’سفر ‘ کا قافیہ باندھا تھا ، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ’’ کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون ...

مزید پڑھیے

میں نماز پڑھ رہا تھا ، لاحول تو نہیں

ایک روز داغؔ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انہیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔اسی وقت داغؔ نے سلام پھیرا۔ملازم نے کہا ’’فلاں صاحب آئے تھے واپس چلے گئے ۔‘‘فرمانے لگے ۔’’دوڑ کر جا،ابھی راستے میں ہوں گے ۔‘‘ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔داغؔ ...

مزید پڑھیے

لمبا قد اور چھوٹے آم

چراغ حسن حسرت کا قد لمبا تھا ۔ ایک روز بازار گئے ۔ آموں کا موسم تھا ۔ ایک دوکاندار سے بھاؤ پوچھا ۔ دوکاندار نے پانچ آنے سیر بتایا۔ حسرت نے کہا۔ ’’میاں آم تو بہت چھوٹے ہیں ۔‘‘ دوکاندار نے کہا۔’’میاں نیچے بیٹھ کر دیکھو آم چھوٹے ہیں یا بڑے ۔ قطب مینار سے تو بڑی شے بھی چھوٹی نظر ...

مزید پڑھیے

زیست کا حاصل

کسی مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سناتے سناتے چراغ حسن حسرت سے مخاطب ہوکر بولے: ’’حسرت صاحب! مصرع اٹھائیے۔‘‘ اور حسرت صاحب نہایت بیچارگی سے کہنے لگے : ’’ضرور اٹھاؤں گا ، اپنی تو عمر ہی غزلوں کے مصرعے اٹھانے اور مردوں کو کندھا دینے میں کٹ گئی ہے۔‘‘

مزید پڑھیے

’شیرازہ ‘ بکھرنا

مولانا چراغ حسن حسرت بے حد ذہین و فطین اخبار نویس ، شاعر ، ادیب و نقاد ہونے کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے زبان داں تھے۔ ہر ایک کا مذاق اڑانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ وہ ہفتہ وار ’’شیرازہ‘‘ شائع کرتے تھے۔ ایک بار جو شامت آئی تو حکیم یوسف حسن پر طنز کیا : ’’حکیم صاحب!اپنے پرچے ...

مزید پڑھیے

شاعری کے تارا مسیح اور امروہہ کے بھٹو

امروہہ میں مشاعرہ بہت سکون سے چل رہا تھا ۔ شاعر بھی مطمئن اور سننے والے بھی خوش کہ بیچ مجمع سے ایک بہت معقول شخصیت والے صاحب اٹھے اور کھڑے ہوکر عادل لکھنوی کی طرف اشارہ کرکے بولے۔ ’’ڈاکٹر صاحب،وہ شاعر جن کی صورت تارا مسیح(جس جلاد نے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ...

مزید پڑھیے

اعظم گڑھ کے سامعین ، بیکل ، وسیم اور بشیر کی پریشانی

اعظم گڑھ کے ایک قصبہ میں سامعین کا یہ موڈ ہوگیا کہ پرانی غزل پر پرانا کلام نہیں سنیں گے ۔بیکل اتساہی اور وسیم بریلوی جتنی غزلیں انہیں یاد تھیں‘ سب کا پہلا مصرعہ سنانے لگے اور مجمع سے آواز آتی رہی کہ سنی ہوئی ہے ۔ آخر کار ان لوگوں نے مہلت مانگی کہ جائے قیام سے اپنی اپنی بیاضیں لے ...

مزید پڑھیے

راحت کا رنگ

مؤناتھ بھنجن میں مشاعرہ ہورہا تھا ۔ بشیربدر نظامت کررہے تھے ۔ راحت اندوری ‘ جن کا رنگ گہرا سانولا سلونا ہے ، ان کی سرمستی کا دور تھا ، مائیک پر آتے ہی بولے۔ ’’حضرات !میں کل سے بہت خوش ہوں۔ دراصل اپنے رنگ کی وجہ سے شرمندہ شرمندہ رہتا تھا، لیکن بابو جگجیون رام نائب وزیر اعظم کی ...

مزید پڑھیے

کنور کی دو آنکھیں

نینی تال کلب میں مشاعرہ ہورہاتھا اور نظامت کررہے تھے جناب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر۔ مشاعرے کے اختتام پر جب بشیر بدر اور وسیم بریلوی پڑھنے کے لئے باقی رہ گئے تو انہوں نے اپنی محبت کا اظہار کیا : ’’یہ میری دونوں آنکھیں ہیں ۔ میں کس کو پہلے بلاؤں اور کس کو بعد میں ۔‘‘ بشیربدر خود ...

مزید پڑھیے
صفحہ 22 سے 29