خود کو کبھی جو خود سے ملانا پڑا ہمیں

خود کو کبھی جو خود سے ملانا پڑا ہمیں
چہرے کے پاس آئینہ لانا پڑا ہمیں


تنہائیوں کا درد بھلانے کے واسطے
خود اپنے گھر میں شور مچانا پڑا ہمیں


مدت کے بعد ہو گیا جب ان سے سامنا
ناکام حسرتوں کو جگانا پڑا ہمیں


اس دشت کائنات میں جینے کے واسطے
سوز غم حیات بھلانا پڑا ہمیں


بن جائے پھر نہ ایک تماشہ یہ سوچ کر
دنیا سے اپنا درد چھپانا پڑا ہمیں


کچھ تیرگی پسند کل آئے تھے اس لیے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں


سورج کا ظلم اور بڑھے گا یہ جب سنا
آنگن میں ایک پیڑ لگانا پڑا ہمیں


ایسا بھی وقت عالم غربت میں آ گیا
بچوں کو بھوکے پیٹ سلانا پڑا ہمیں


رہبرؔ ہمارے واسطے منزل نہیں چلی
منزل کی سمت چل کے خود آنا پڑا ہمیں