خود اپنی محفل میں تھا پرایا
خود اپنی محفل میں تھا پرایا
کہ ایک میں ہی تھا بن بلایا
وہ جس کی خاطر میں جی رہا تھا
وہ پل بھی آخر گزار آیا
عجب تھا یہ اشتراک باہم
میں ایک وحشت وہ ایک سایا
نگارش جاں ترے لیے میں
ہزار مرگ و حیات لایا
بدن سے اب ہو رہا ہوں رخصت
ادا نہیں کر سکا کرایہ
سراب نکلا ترا تعاقب
میں زندگی کو گنوا ہی آیا