خبر ان کو نہ ہو کچھ بھی ہمیں تسکیں بھی مل جائے
خبر ان کو نہ ہو کچھ بھی ہمیں تسکیں بھی مل جائے
صبا اے کاش ان کی زلف سے نکہت چرا لائے
کسی کو تو ملے تازہ و تر پھولوں کے گلدستے
مگر ہم نے تو مرجھائے ہوئے گل بھی نہیں پائے
ہمیں تشنہ رہے مے خانۂ ہستی میں اے ساقی
جناب شیخ نے مسجد میں ساغر خوب چھلکائے
فروزاں ہے متاع آرزو جس کے خیالوں سے
تصور میں ہیں اس زہرہ جبیں کے خوش نما سائے
محبت رنگ لاتی ہی رہی باغ تمنا میں
چمن میں جس کلی کو ہم نے دیکھا آپ یاد آئے
گزر جاؤں گا دنیا سے رضاؔ میں بے نیازانہ
کسے معلوم ہے تم تک نہ آئے یا خبر آئے