اک جفا کار نے ہستی سے گزرنے نہ دیا

اک جفا کار نے ہستی سے گزرنے نہ دیا
وائے حسرت مجھے رو رو کے بھی مرنے نہ دیا


ہو گیا ختم مرا قصۂ غم آہ کے ساتھ
اک سہارا بھی کوئی بانئ شر نے نہ دیا


میں شب درد ملا کرتا تھا جس جا ان سے
پھر کبھی ساتھ اسی راہگزر نے نہ دیا


کاٹ دی رات تڑپ کر جو مریض غم نے
آسرا اس کو بھی امید سحر نے نہ دیا


اے رضاؔ شومیٔ قسمت کا گلہ کس سے کریں
جلوہ کب دور رہا ساتھ نظر نے نہ دیا