ابھی تک جس کو اپنایا نہیں تھا
ابھی تک جس کو اپنایا نہیں تھا
وہ صرف اک دھوپ تھی سایہ نہیں تھا
گھروندے ریت کے بن تو گئے تھے
ٹھہر جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا
نہ جانے میری بستی میں ہوا کیا
وہی سڑکیں تھیں ہنگامہ نہیں تھا
جسے خوابوں کے شیشوں میں رکھا تھا
وہ ایسا تھا مگر ویسا نہیں تھا
شہر میں وارداتیں ہو چکی تھیں
مگر مے خانوں میں چرچا نہیں تھا
جو صدیوں کے مزاجوں کو بدل دے
وہ لمحہ آج تک گزرا نہیں تھا
سبھی کو مطلبی پایا جہاں میں
ہر اک اپنا تھا پر اپنا نہیں تھا
مرے ساتھ اور کتنے تھے مسائل
حصار ذات میں تنہا نہیں تھا
رضاؔ کیا تم نے اپنا عکس دیکھا
وہ پتھر تھا مگر شیشہ نہیں تھا