خاموشی کی دھن پہ تنہا رقص کرتی رات ہے
خاموشی کی دھن پہ تنہا رقص کرتی رات ہے
زخم کھائے دل کے سینے میں اترتی رات ہے
صحرا صحرا پیاس کے منظر سے ہو کر رو بہ رو
اب کسی عاشق کے ہونٹوں سے ابھرتی رات ہے
پھول سورج روشنی سے دور شبنم کی طرف
دن ڈھلے تاروں کے درپن میں سنورتی رات ہے
ٹیس گہری اور یادوں کا اترتا قافلہ
پیار کے دوزخ سے سہمی اور کترتی رات ہے
کچھ سیہ تصویر ماضی کے خیالوں کا دھواں
سب میں اپنے درد کا کچھ عکس بھرتی رات ہے
یوں کہوں تو ایک لڑکا اس کو پیارا ہے بہت
لوگ تیجسؔ یہ بھی کہتے اس پہ مرتی رات ہے