مسئلہ کشمیرکیا ہے اور اسے کیسے حل کیاجاسکتا ہے؟

1947میں ہندوستان اور پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد سے ہی کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے۔ اب تک اس تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ اس وقت مسئلہ کشمیر کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ  یہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوںNuclear powers  کے درمیان کشیدگی  کی بنیادی وجہ ہے۔  اگر دونوں ممالک کسی بھی وقت مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنگ میں الجھ   جائیں اور جوہری ہتھیار nuclear weaponsاستعمال کریں تو یہ خطہ جو دنیا میں سب سے خوبصورت خطوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، تباہی اور موت کی وہ خوفناک تصویر دکھائے گا جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

مسئلہ کشمیر کیا ہے؟ 

کشمیر، ایشیا کے ایک بہت اہم علاقے میں واقع ہے۔ سوویت یونین اور برطانیہ بھی انیسویں صدی میں تزویراتی لحاظ سے اہم علاقے کشمیر پر قبضے کے لئےحریف تھے. انگریزوں کے بر صغیر پر قبضے کے دوران کشمیر روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان   Buffer Zone کے طور پر رہا.ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی تک کشمیر ایک مرکزی خطہ تھا۔کشمیر کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان اتنی ہی اہم رہی۔

درحقیقت جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو پاکستان کے نام میں ک کا حرف کشمیر کے لئے تھا۔یہ خطہ ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنتا تھا۔ مذہبی خونی رشتوں، تجارتی روابط، بہتے دریاؤں کے آبی رشتے، پاکستان اور کشمیر کے خطے کو باہم مربوط اور منسلک کرتے ہیں۔ کشمیر کے جنگلات کی قیمتی لکڑی جن دریاؤں کے ذریعہ تجارت کی غرض سے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کے ساتھ اسی خطے میں جاتی تھی جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔ 3 جون 1947ء کے تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت بھی پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق ناگزیر تھا۔

 

 

بدقسمتی سے تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز کی باہمی سازش نے اس خطہ کو پاکستان سے ملحق کرنے کی بجائے ایک سازش کی اور کشمیر کی وادی میں ہندو اور فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی۔ تاکہ آزادی کی روح کو کچلا جا سکے۔ آج جو خطہ آزادکشمیر کے نام سے ہمیں نظر آتا ہے وہ ان چند سرفروش مجاہدین کشمیر اور حریت پسند نوجوان طبقہ کی کاوش کا نتیجہ ہے جنہوں نے سر پر کفن باندھ کر آزادی کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا۔

عالمی سطح پر اقوام متحدہ نے بھارت کے واویلا پر عارضی جنگ بندی 1948 ء میں اس وعدے پر کروائی کہ کشمیری عوام کو رائےدہی  کا حق دیا جائے گا۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی تا کہ کشمیری عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے؟ مگر افسوس کہ یہ ادارہ 60 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کرا سکا۔

بھارت اور روس کی ملی بھگت نے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر ہمیشہ دبانے کی کوشش کی۔ عالمی ادارے کی اس مجرمانہ چشم پوشی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے کشمیر میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں اور ایک جعلی اسمبلی کے ذریعے کشمیر کے مقبوضہ علاقے کا ہندوستان سے الحاق کا ڈھونگ رچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا راگ الاپنا شروع کیا۔

جب چین بھارت سرحدی تنازع ہوا تو بھارت نے اپنی مکاری کے تحت دنیا کو دھوکہ دینے اور پاکستان کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شیخ عبداللہ کو ایوب خان مرحوم کے ساتھ مذاکرات کی غرض سے پاکستان بھیج دیا۔ 1965ء میں اسی مسئلہ پر پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں کشمیر تو آزاد نہ ہوا مگر یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان پر بھارتی قبضہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔

1965ء کی جنگ میں عملاً شکست کا بدلہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کامیاب اور 90ہزار جنگی قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں قید کرکے لیا گیا۔ہم نے اپنی ناعاقبت اندیشوں سے یہ ستم بھی دیکھا۔

کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جو قابل اعتماد تجاویز ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

...اقوام متحدہ اپنے وعدہ پر عمل کرے اور کشمیری عوام کو راۓ شماری کا حق دیا جائے

...دونوں ریاستیں کسی بڑی طاقت کو ثالث بنالیں اور فیصلہ تسلیم کر لیا جائے۔

...دونوں ملک دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کریں۔

...دونوں ملک کشمیر سے نکل جائیں اور خود مختار کشمیر کی ریاست قائم کر دی جائے تا کہ کشمیر عوام کے موجودہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

آئیے ہم اختصار کے ساتھ ان مختلف تجاویز کا جائزہ لیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں اور مسئلہ کشمیر:

مسئلہ کشمیر اصولی اور بنیادی طور پر اقوام متحدہ کی قراردوں کے مطابق حل ہوسکتا ہے جن کے مطابق کشمیر کے لوگوں کا اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حق رائے دہی دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا بھر میں قیام امن کا ضامن اور ذمہ دار ہے مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ ادارہ چند بڑی طاقتوں کی جاگیر بن چکا ہے۔ روس کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ ادارہ عملا امریکہ کی جاگیر ہے ۔ روس نے مسئلہ کشمیر کو ویٹو کیا،امریکہ نے بھی اس مسئلہ پر اپنا کردار نہیں ادا کیا۔ بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ عالمی ادارہ اپنا کردار ادا کرے گا۔

مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعہ حل کرنا:

مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعہ حل کرنے کی تجویز بھی متعدد مرتبہ سامنے آئی ہے۔ برطانیہ نے ثالثی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ چین نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا، ایران نے اپنی خدمات پیش کیں مگر بھارت کی ہٹ دھرمی میں نہ مانوں اوراٹوٹ انگ‘ کی رٹ کے سامنے ان مخلص ممالک کی تجویز موثر ثابت نہ ہوئی۔

دو طرفہ مذاکرات:

دو طرفہ مذاکرات کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں جبکہ فریقین فراخدلی اور وسیع النظری کا ثبوت دیں۔ لیکن یہاں معاملہ غاصب اور تنگ نظر فریق کا ہے۔ دو طرفہ مذاکرات صدر ایوب خان کے دور میں بھی ہوئے جن میں  انتہائی قابل اور تیز و شاطر وزیرخارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی نمائندگی کی مگر سورن سنگھ کے سامنے کوئی دال نہ گلی۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں بھی یہ بے مقصد ورزش کی گئی  لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔

خود مختار کشمیر کی تجویز:

دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں نکال لیں، کشمیر کا بارڈر ختم ہوجائے، کشمیری عوام آزادانہ اپنی ریاست میں آئیں جائیں، تجارت کریں، دونوں ملکوں کی فوج کا بوجھ اور خرچ ختم ہو، کشمیر ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے اپنا کردار عالمی سطح پر ادا کرے۔یہ تجویز دینے والے کہتے ہیں کہ الحاق پاکستان سے کشمیریوں کو کیا ملے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجویز شاید بھارت کے حق میں جائے۔

 یہ پاکستان کے لئے سراسر نقصان دہ ہے۔ چین بھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کے پڑوس میں جغرافیائی اہمیت کی حامل اس ریاست میں امریکہ آکر اڈوں کے ذریعے ان کی نگرانی کرے۔نیز بھارت اس ریاست کے لیے  نت نئے مسائل کھڑے کرتا جائے گا۔ خود مختار کشمیر پاکستان کی شہ رگ کو کاٹنے کے مترادف ہے۔

پھر مسئلہ کشمیر کو کیسے حل کیا جا سکتا ھے ؟

دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایٹمی قوتیں بن جانے کے بعد اس مسئلہ پر جذباتی انداز میں ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کی احمقانہ حرکت کے باوجود ایک دوسرے کو فتح نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قتل ہو سکتا ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ تو دہرائی جا سکتی ہے، لاہور اور دہلی کھنڈر تو بن سکتے ہیں، دونوں ممالک کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے لیکن جنگ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کا اولین موقف ہی اس حوالے سے درست قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کو حق رائے دہی دیا جائے اور  ان کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ہی اسےحل کیا جائے۔

متعلقہ عنوانات