عالمی یوم خواندگی: ہم پڑھا لکھا پاکستان کیسے بناسکتےہیں؟

8 ستمبر کا دن ہر سال  عالمی یوم خواندگی  World Literacy Dayکے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں خواندگی اور علم کی عظمت کو نمایا ں کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن عالمی خواندگی کے بحران پر روشنی ڈالنے کا دن بھی ہے۔ یونیسکو کے مطابق آج کی جدید دنیا  میں بھی میں 750 ملین سے زائد بالغ افراد میں پڑھنے اور لکھنے کی بنیادی مہارتوں کا فقدان ہے۔ عالمی یوم خواندگی کے اعزاز میں ہم دنیا بھر میں خواندگی کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔

عالمی یوم خواندگی کی مختصر تاریخ :

اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کے مطابق عالمی یوم خواندگی 1966ء سے ہر سال 8 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد افراد، برادریوں اور معاشروں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر خواندگی کو فروغ دینا ہے۔

خواندگی کی اگرچہ کوئی ایک تعریف نہیں ہے۔ تاہم یونیسکو خواندگی کی تعریف یوں کرتا ہے کہ "مختلف سیاق و سباق سے وابستہ مطبوعہ اور تحریری مواد کا استعمال کرتے ہوئے شناخت کرنے، سمجھنے، تشریح کرنے، تخلیق کرنے، بات چیت کرنے اور شمار کرنے کی صلاحیت خواندگی کہلاتی ہے۔خواندگی میں افراد کو اپنے اہداف کے حصول، اپنے علم اور صلاحیت کو فروغ دینے اور اپنی کمیونٹی اور وسیع تر معاشرے میں مکمل طور پر حصہ لینے کے قابل ہونا شامل ہے"۔

عالمی یوم خواندگی، خواندگی کی اہمیت اور افراد، برادریوں اور معاشروں کو بااختیار بنانے میں اس کے کردار کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا بھی ایک اہم موقع ہے۔ یہ اس پیش رفت کا جشن منانے کا بھی موقع ہے جو دنیا بھر میں شرح خواندگی میں اضافے میں ہوئی ہے۔یونیسکو کے مطابق عالمی بالغ آبادی، جن کی عمر پندرہ سال یا اس سے زیادہ ہے ، میں سے 750 ملین افراد ناخواندہ ہیں جو کہ دنیا  کی آبادی کا کل تقریبا 16 فیصد بنتا ہے۔ مزید یہ کہ ناخواندہ بالغوں کی اکثریت خواتین (64 فیصد) ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق خواندگی اور غربت کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔ ناخواندہ بالغوں کے غربت میں زندگی گزارنے کا خطرہ یا خدشہ زیادہ ہوتاہے۔

پاکستان میں خواندگی کی صورتحال :

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی 207 ملین سے زیادہ ہے۔ یونیسکو کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 58  فیصد ہے۔بہت سے عوامل ہیں جو پاکستان میں شرح خواندگی میں کمی میں  کے اسباب قرار دیے جاسکتے ہیں:

 ایک عنصر اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ کی بلند شرح ہے۔ پاکستانی تعلیمی ایڈوکیسی گروپ الف اعلان کے مطابق پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے صرف 50 فیصد طلبا پانچویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ تعداد لڑکیوں کے لیے اور بھی کم ہو جاتی ہے  یعنی پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والی صرف 45 فیصد لڑکیاں جماعت پنجم  تک پہنچتی ہیں۔

دیگر عوامل جو کم شرح خواندگی کی وجہ بنتے ہی،  ان میں غربت، چائلڈ لیبر اور تعلیم تک رسائی کا فقدان شامل ہیں۔ پاکستان میں 22 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے خاندان اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں تقریبا 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبرسے وابستہ ہیں،  یہ بچے اکثر اسکول جانے کی بجائےمختلف قسم کے چھوٹے موٹے  کام کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں خواندگی کے لیے کام کرنے والے ادارے:

مزید یہ کہ پاکستان کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں آج بھی کئی کئی  کلومیٹر کے فاصلے تک تک  اسکول دستیاب نہیں ہیں۔پاکستان میں خواندگی کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ تاہم ملک میں شرح خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے تنظیمیں اور پروگرام کام کر رہے ہیں۔آج کا دن خصوصی طور پر ان تنظیموں اور اداروں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن بھی ہے۔

سرکاری سطح پر بھی اس حوالے سے کوششیں کی جارہی ہیں اور ان میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پی کے اور اسی طرح بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا کردار نمایاں ہے جنھوں نے ملک بھی میں لاکھوں ایسے بچوں کو سکولوں کی سہولت فراہم کی ہے جو سکولوں سے محروم تھے۔

حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ  پاکستان میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، ریڈ فاؤنڈیشن، اخوت، سٹیزن فاؤنڈیشن اور اسی طرح کے دیگر کئی ادارے ہیں جو علم کی روشنی پھیلانے اور پاکستان کے ناخواندہ افراد کو خواندہ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سکولوں میں کم و بیش پچاس ہزار ایسے غریب گھرانوں کے بچے زیرتعلیم ہیں جو ان سکولوں میں آنے سے پہلے کبھی سکول نہیں گئے، ان بچوں کو عالمی سطح پر آؤٹ آف سکول چلڈرن Out of School Children کہا جاتا ہے۔ نیز اس ٹرسٹ کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں یتیم اور زکوٰۃ کے مستحق بچے بھی مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح دیگر تنظیمات نے بھی بہت سی کوششوں سے غربت، رسائی اور صنفی امتیاز کا شکار بچوں کو تعلیم دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

آج کے دن اس عزم کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہمیں بچوں کو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لیے کام کرنے والے افراد اوراداروں کا دست و بازہ بننا ہے اور ان کے ساتھ مل کر اس دنیا کو امن کے ساتھ ساتھ علم کا گہوارہ بنانے کی بھی کوشش کرنی ہے۔

متعلقہ عنوانات