کہاں ہو کون ہو کیا ہو ہمیں بتاؤ تو
کہاں ہو کون ہو کیا ہو ہمیں بتاؤ تو
نکل کے پردۂ دیر و حرم سے آؤ تو
اندھیرا پھر نہ رہے گا دیے جلاؤ تو
رخ حیات سے اک اک نقاب اٹھاؤ تو
میں اپنے جذب محبت کا امتحاں لے لوں
کچھ اور میری نگاہوں سے دور جاؤ تو
زمانہ ہو گیا چھایا ہے گلستاں پہ جمود
چمن پرستو نیا گل کوئی کھلاؤ تو
اجالے سینۂ ظلمات ہی سے نکلیں گے
چراغ امن و محبت ذرا جلاؤ تو
قدم قدم پہ بناؤں گا ایک شیش محل
تم اپنے شہر میں مجھ کو کبھی بلاؤ تو
زباں پہ ہوگا تمہاری بھی شکوۂ دنیا
ہماری طرح ذرا تم بھی چوٹ کھاؤ تو
جھکے گا ایک زمانہ تمہارے قدموں پر
خدا کے سامنے اے نورؔ سر جھکاؤ تو