جو دیر و حرم کو بہم دیکھتے ہیں
جو دیر و حرم کو بہم دیکھتے ہیں
وہی آدمیت کے غم دیکھتے ہیں
ہمیں دیکھ ہم وحشتوں کے جہاں سے
تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں
عجب حادثہ ہے کہ ہم چشم گل سے
عنادل کی آنکھوں کو نم دیکھتے ہیں
مکاں میں ہی کیا لا مکاں میں بھی تو ہے
تجھے نور و نکہت میں ہم دیکھتے ہیں
مآل گلستاں فراموش کر کے
متاع گلستاں کو ہم دیکھتے ہیں
جہاں سر جھکاتے ہیں ہم بے خودی میں
رضاؔ ان کے نقش قدم دیکھتے ہیں