جس کو اپنا نقش پا ملتا نہیں

جس کو اپنا نقش پا ملتا نہیں
اس کو منزل کا پتہ ملتا نہیں


اب تو بزم ناز میں بھی آپ کی
میرے دل کو آسرا ملتا نہیں


ذرے ذرے سے تجلی ہے عیاں
کون کہتا ہے خدا ملتا نہیں


یاد جاناں کی عنایت دیکھیے
زخم دل کو آئنہ ملتا نہیں


کل تو مل جاتے تھے ہر ایک موڑ پر
آج کوئی رہنما ملتا نہیں


اس جہان غیر میں اپنا مجھے
کوئی بھی غم کے سوا ملتا نہیں


کیا پتا ان کا بتائے گا بھلا
شادؔ کو خود کا پتہ ملتا نہیں