یاد رکھ کر بھی بھول جاتے ہیں
یاد رکھ کر بھی بھول جاتے ہیں
دل میں جتنے خیال آتے ہیں
کاش دل کو بھی صاف کر لیتے
روز گنگا میں جو نہاتے ہیں
ہیں وہی بس وہی ہیں اپنے دوست
جو مصیبت میں کام آتے ہیں
چاند پر جانے والے جا پہنچے
ہم ابھی تک ہنسی اڑاتے ہیں
جو ہمیں یاد ہی نہیں کرتے
روز وہ ہم کو یاد آتے ہیں
ان کے کہنے پہ کیوں یقیں آئے
روز بے پر کی جو اڑاتے ہیں
شادؔ تکلیف دیکھ کر ان کی
خود بھی دل میں چبھن سی پاتے ہیں