کسی سے تم نہ کہیں برہمی کی بات کرو
کسی سے تم نہ کہیں برہمی کی بات کرو
جہاں میں جس سے کرو دوستی کی بات کرو
جلاؤ شمعیں خلوص و وفا کی دنیا میں
ہر ایک موڑ پہ تم روشنی کی بات کرو
بہار لائے جو سب کے لئے گلستاں میں
روش روش پہ اسی آدمی کی بات کرو
تقاضا ہوش و خرد کا ہے تم سے دیوانو
جنوں کے دور میں بھی آگہی کی بات کرو
جو ایک بوند بھی رندوں کو دے سکے نہ شراب
نہ اس کے منصب ساقی گری کی بات کرو
فنا شکار نہ ہو جو کبھی زمانے میں
قدم قدم پہ تم اس زندگی کی بات کرو
تمہیں پیام محبت جو عام کرنا ہے
کسی سے شادؔ نہ تم دشمنی کی بات کرو