دیوانہ دوراہے پہ کھڑا سوچ رہا ہے
دیوانہ دوراہے پہ کھڑا سوچ رہا ہے
کعبے میں خدا ہے تو صنم خانے میں کیا ہے
ساقی کی نگاہوں سے جو سرشار ہوا ہے
پیمانہ اٹھانے کی ضرورت اسے کیا ہے
الجھی ہوئی زلفیں تری سلجھائیں گے کیسے
وہ لوگ جنہیں گردش دوراں سے گلہ ہے
یہ منزل فرقت پہ شب ہجر کا عالم
تاروں کی طرح دل بھی مرا ڈوب رہا ہے
کچھ رہزن و رہبر پہ ہی موقوف ہے ہمدم
اس دور میں دیکھو جسے دیوانہ ہوا ہے
مے کش ہیں نہ ساقی ہے نہ ساغر ہے نہ بادہ
رندو میرے میخانے کی ترکیب جدا ہے
طوفان کی ہر موج سے اے شادؔ یہی پوچھ
کچھ ڈوبنے والوں کا بتا تجھ کو پتا ہے