انشائیہ: جی ہاں

جی ہاں، جی سرکار، لبیک، Yes Sir جیسے الفاظ کسی شخص کی موجودگی یا کسی بات کے مثبت جواب بارے میں بولے جاتے ہیں۔ایجاب و قبول کے یہ الفاظ خاص طور پر "ہاں جی" کہنے والے افراد اکثر جگہ  کامیاب رہتے ہیں۔ افسران بالاکی ہاں میں ہاں میں ملانے والے اہل کار کسی بھی باز پُرس سے بچے رہتے ہیں۔ 

سرداروں کے نوکری کرنے والے  اپنی تمام ناتوانی کے باوجود جفا کشی کے لیے ہامی بھر لیتے ہیں اور عمر بھر" نہ" کا لفظ زبان پر نہیں لاتے ۔ جی حضور یے لوگ اکثر اوقات محنتی اور جفاکش لوگوں پر سبقت لے جاتے ہیں۔ کوئی خوبرو چہرہ جب جی میں بس جائے تو جی بس میں نہیں رہتا اور کسی کی کوئل سی آواز جی کو اچھی لگ جائے تو کسی کام میں جی نہیں لگتا جی چاہتا ہے کہ بندہ جیتے جی جان پر کھیل جائے۔

پھر جی میں ہے کہ در پر کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے

جی ہاں کا متضاد "نہیں"  ہے جبکہ عمر بھر کسی سائل نے درِرسول ﷺ سے لفظ "نہیں" نہیں سنا۔ پاک فوج میں جی او سی عہدہ  کے افسران ملک کے جیوگرافی حدود کے نگران و نگہبان ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم لوگ شاید اس لیے پیچھے ہیں کہ "لو جی" قافیہ دوسرے مضامین مثلاً سوشیالوجی، جیالوجی، بیالوجی کو طلبہ پڑھتے ہیں اور اس کے برعکس ٹیکنالوجی کے آخر میں چونکہ "نالوجی" ہے اس لئے اسے آسانی سے نہیں لیتے اور نتیجتاً اس میدان میں رہ جاتے ہیں۔ ڈی جی خان کے مسائل زدہ لوگ آئی جی کے پاس لاہور تو نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے عریضے جی پی او کے لیٹر بکس میں ڈال دیتے ہیں کہ اب مراد پوری ہو جائے گی۔

پنجابی لوگ اپنے مطلوب کی ایک "نکی جئی ہاں" کے بدلے جی جان وارنے کو تیار رہتے ہیں۔ جبکہ "جی سائیں" کہنے والے سرائیکی لوگ سینے یا چھاتی کو "ہاں" کہتے ہیں۔ بعض معالج یہ جملہ سن کر متحیر ہو جاتے ہیں کہ "ہاں میں درد ہے۔" درد تو واقعی "ہاں" میں ہوتا ہے، ایک "ناں" سو سُکھ ۔

اجی ۔۔۔۔ سنیئے جی۔۔۔کے جواب میں ہاں جی ہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔ناں جی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ اب تو ون یا ٹو کا دور ہی نہیں۔۔۔ تھری جی۔۔فور جی سے بھی بات اب فائیو جی تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ جی پی ایس کے بغیر جیون ہی نامکمل لگتا ہے۔۔۔ جی ہی جی میں کہاں تک جوت جگائی جا سکتی ہے۔۔۔جگ بالآخر جان ہی جاتا ہے۔۔

 جی جان سے جدوجہد کرنے والے جست واحد میں جگ سے آگے نکل جاتے ہیں۔۔ بس جی۔۔۔ بات تو جی کے جی سے ملنے کی ہوتی ہے۔۔۔پھر جیون جنت سے بھی حسین ہو جاتا ہے۔ بس یہ جاں لو جی۔۔۔جیت ہی جی والوں کی ہوتی ہے ۔۔۔

کیوں جی ؟

آج کل پاکستان کی سیاست میں "ہرگز نہیں جی" (ابسولیوٹلی ناٹ) کے چرچے ہیں۔ ہم کچھ جملے ازل سے سن رہے  ہیں لیکن الجھن کا شکار ہیں کہ آیا ان کا جواب "ہاں جی" میں دینا چاہیے یا "نہیں جی" میں۔۔۔یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے کہ آپ کا کیا جواب آتا ہے۔۔۔اایک تیسرا آپشن بھی ہے۔۔۔ "اچھا جی!"

ہم آزاد اور خوددار قوم ہیں اور ہم آزاد خارجہ پالیسی رکھتے ہیں۔

ہم فقیر قوم ہیں ، ہماری کیا چوائس ہونی ہے۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔

میں بیگم سے ہرگز نہیں ڈرتا، میں بھی خود دار شوہر ہوں۔

احترام کے طور پر لفظ "جی" بولا جاتا ہے۔ جیسے صاحب جی، ابو جی، سردار جی مگر نہ جانے کمپنی والوں نے کیا سوچ کر "ایل جی" نام رکھا ؟ بہرحال گل جی کی گل کاری، جی الانا کی تحریریں اور میرا جی کی شاعری میں اب بھی جی  جان موجود ہے۔ انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا؟

ذہنی آسودگی اور خوش مزاجی کے لیے شاعری میں جی لگانا چاہیے۔

افتخار عارف کی غزل جی لگاکے پڑھیے:

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے

ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑے

ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت

اسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

                                                          

متعلقہ عنوانات