جلوہ بہ جلوہ سامنے آتا ہے کوئی اور
جلوہ بہ جلوہ سامنے آتا ہے کوئی اور
لحظہ بہ لحظہ مجھ کو لبھاتا ہے کوئی اور
پردہ میں پھول جلوہ دکھاتا ہے کوئی اور
رنگ اپنا رنگ و بو میں جماتا ہے کوئی اور
کیسا غرور حسن کہاں کا نیاز عشق
دنیا کو ان کے کھیل دکھاتا ہے کوئی اور
میں جانتا ہوں شیخ و برہمن کی دوڑ دھوپ
رستہ بتا کے ان کو پھراتا ہے کوئی اور
بے خود ہے دل خیال میں ایک مست ناز کے
پیتا ہے کوئی اور پلاتا ہے کوئی اور
طوطی کی طرح آئنۂ کائنات میں
کہتا ہوں وہ جو پیچھے سکھاتا ہے کوئی اور
ذائقؔ ستم ظریفیٔ دور زماں کو دیکھ
دولت کسی کی عیش اڑاتا ہے کوئی اور