جب خاک اڑاتا ہوا نیندوں کا سفر ہو
جب خاک اڑاتا ہوا نیندوں کا سفر ہو
پھر کیوں نہ کسی اور ہی دنیا سے گزر ہو
وہ میرے برابر سے نکل آیہ تھا ورنہ
دیوار نہ تھی ایسی کہ جس میں کوئی در ہو
میں جسم سے گزرا ہوں یہی سوچ کے اکثر
شاید کہ تری روح کا اس راہ میں گھر ہو
یہ کیسی تمنا ہے کہ اس دشت میں فیصلؔ
دریا ہو کنارہ ہو سفینہ ہو بھنور ہو