جانے آزادؔ وہ دن پھر کبھی آئے کہ نہیں

جانے آزادؔ وہ دن پھر کبھی آئے کہ نہیں
وہ ہمیں اتنی محبت سے بلائے کہ نہیں


پھر میں دیوانہ بنوں وہ مرا دامن تھامے
یاد تیری مرے یوں ناز اٹھائے کہ نہیں


پھر ہوا تازہ نہ کر دے میرے بھولے ہوئے غم
مجھ کو پلکوں پہ تری یاد بٹھائے کہ نہیں


بارہا گردش دوراں میں الجھ کر وہ بھی
سوچتا ہے کہ مجھے دل سے بھلائے کہ نہیں


یاد کر عشق کے وہ دور کہ تو نے میں نے
دل جلائے کہ نہیں خواب لٹائے کہ نہیں


اب کہ اتوار بھی آزادؔ نہ ویراں گزرے
تیز بارش ہے خدا جانے وہ آئے کہ نہیں